لہو کے ساتھ طبیعت میں سنسناتی پھرے
یہ شام شام غزل سی ہے گنگناتی پھرے
دھڑک رہا ہے جو پہلو میں یہ چراغ بہت
بلا سے رات جو آئے تو رات آتی پھرے
جواں دنوں کی ہوا ہے چلے چلے ہی چلے
مرے وجود میں ٹھہرے کہ آتی جاتی پھرے
غروب شام تو دن بھر کے فاصلے پر ہے
کرن طلوع کی اتری ہے جگمگاتی پھرے
غم حیات نشہ ہے حیات لمبی کسک
لہو میں ٹھوکریں کھائے کہ ڈگمگاتی پھرے
لو طے ہوا کہ خلا میں ہے مستقر اپنا
زمین جیسے پکارے جہاں بلاتی پھرے
غزل
لہو کے ساتھ طبیعت میں سنسناتی پھرے
ارشد ملک