بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں
سو ترے سامنے یہ خاک پسارے ہوئے ہیں
جانے کب ان کو بجھا بیٹھے کوئی باد الم
سر مژگان تمنا جو ستارے ہوئے ہیں
زندگی تو بھی ہمیں ویسے ہی اک روز گزار
جس طرح ہم تجھے برسوں سے گزارے ہوئے ہیں
نت نئے نقش کریں اس پہ اذیت کے رقم
آ کہ ہم تختیٔ دل اپنی پچارے ہوئے ہیں
کب کچل جائیں کسی پاؤں سے ہم برگ وجود
وقت کی دھوپ میں ویسے ہی کرارے ہوئے ہیں
جانتے ہیں کہ تو ہی عشق بدن کو ہے لباس
ہم ترا روپ جو آشفتگی دھارے ہوئے ہیں
اپنی جرأت کی ستائش ہو کہ ہم چوب مزاج
ربط رکھتے ہیں سدا ان سے جو آرے ہوئے ہیں

غزل
بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں
ارشد جمال صارمؔ