EN हिंदी
بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں | شیح شیری
bas ki ek lams ki ummid pe ware hue hain

غزل

بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں

ارشد جمال صارمؔ

;

بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں
سو ترے سامنے یہ خاک پسارے ہوئے ہیں

جانے کب ان کو بجھا بیٹھے کوئی باد الم
سر مژگان تمنا جو ستارے ہوئے ہیں

زندگی تو بھی ہمیں ویسے ہی اک روز گزار
جس طرح ہم تجھے برسوں سے گزارے ہوئے ہیں

نت نئے نقش کریں اس پہ اذیت کے رقم
آ کہ ہم تختیٔ دل اپنی پچارے ہوئے ہیں

کب کچل جائیں کسی پاؤں سے ہم برگ وجود
وقت کی دھوپ میں ویسے ہی کرارے ہوئے ہیں

جانتے ہیں کہ تو ہی عشق بدن کو ہے لباس
ہم ترا روپ جو آشفتگی دھارے ہوئے ہیں

اپنی جرأت کی ستائش ہو کہ ہم چوب مزاج
ربط رکھتے ہیں سدا ان سے جو آرے ہوئے ہیں