ترے ہونٹھوں سے شرما کر پسینے میں ہوا یہ تر
خضر نے خود عرق پونچھا جبین آب حیواں کا
ارشد علی خان قلق
عمر تو اپنی ہوئی سب بت پرستی میں بسر
نام کو دنیا میں ہیں اب صاحب اسلام ہم
ارشد علی خان قلق
ان واعظوں کی ضد سے ہم اب کی بہار میں
توڑیں گے توبہ پیر مغاں کی دکان پر
ارشد علی خان قلق
وہ ایک رات تو مجھ سے الگ نہ سوئے گا
ہوا جو لذت بوس و کنار سے واقف
ارشد علی خان قلق
وہ رند ہوں کہ مجھے ہتھکڑی سے بیعت ہے
ملا ہے گیسوئے جاناں سے سلسلہ دل کا
ارشد علی خان قلق
یاد دلوایئے ان کو جو کبھی وعدۂ وصل
تو وہ کس ناز سے فرماتے ہیں ہم بھول گئے
ارشد علی خان قلق
یار کی فرط نزاکت کا ہوں میں شکر گزار
دھیان بھی اس کا مرے دل سے نکلنے نہ دیا
ارشد علی خان قلق

