جڑے ہوئے ہیں پری خانے میرے کاغذ سے
جو اٹھ رہے ہیں یہ افسانے میرے کاغذ سے
کترتا رہتا ہے مقراض چشم سے مجھ کو
بنانا کیا ہے اسے جانے میرے کاغذ سے
قلم نے نوک الم کیا رکھی بہ چشم دل
چھلکنے لگ گئے پیمانے میرے کاغذ سے
رقم کروں بھی تو کیسے میں داستان وفا
حروف پھرتے ہیں بیگانے میرے کاغذ سے
ابھی رکھی بھی نہیں لو چراغ پر میں نے
لپٹ گئے کئی پروانے میرے کاغذ سے
کدال خامہ سے بوتا ہوں میں جنوں صارمؔ
سو اگتے رہتے ہیں دیوانے میرے کاغذ سے
غزل
جڑے ہوئے ہیں پری خانے میرے کاغذ سے
ارشد جمال صارمؔ