پلٹ کر دیکھنے کا مجھ میں یارا ہی نہیں تھا
نہیں ایسا کہ پھر اس نے پکارا ہی نہیں تھا
سمندر کی ہر اک شے پر ہماری دسترس تھی
کہ طغیانی بھی اپنی تھی کنارہ ہی نہیں تھا
وہ اک لمحہ سزا کاٹی گئی تھی جس کی خاطر
وہ لمحہ تو ابھی ہم نے گزارہ ہی نہیں تھا
وہ بن کر چاند تب اترا تھا اس دل کی زمیں پر
محبت کا جب آنکھوں میں ستارہ ہی نہیں تھا
ورائے جسم تھا کچھ اور بھی اس کے جلو میں
فقط وہ روشنی کا استعارہ ہی نہیں تھا
جنوں کے پاؤں میں چھن کیسی در آئی کہ میں نے
ابھی وحشت کو صحرا میں اتارا ہی نہیں تھا
غزل
پلٹ کر دیکھنے کا مجھ میں یارا ہی نہیں تھا
ارشد جمال صارمؔ