یہ خاکی پیرہن اک اسم کی بندش میں رہتا ہے
زمانہ ہر گھڑی ورنہ نئی سازش میں رہتا ہے
اسی باعث میں اپنا نصف رکھتا ہوں اندھیرے میں
مرے اطراف بھی سورج کوئی گردش میں رہتا ہے
میں اک پرکار سا سیار بھی ہوں اور ثابت بھی
جہاں سارا مرے قدموں کی پیمائش میں رہتا ہے
مری آنکھوں میں اب ہے موجزن بس ریت وحشت کی
سمندر اب کہاں پلکوں کی ہر جنبش میں رہتا ہے
سپرد آب یوں ہی تو نہیں کرتا ہوں خاک اپنی
عجب مٹی کے گھلنے کا مزا بارش میں رہتا ہے
تسلط ہے کسی کا جب سے اپنی ذات پر صارمؔ
ہمارا دل بہت آرام و آسائش میں رہتا ہے
غزل
یہ خاکی پیرہن اک اسم کی بندش میں رہتا ہے
ارشد جمال صارمؔ