EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہم نے چاہا تھا تیری چال چلیں
ہائے ہم اپنی چال سے بھی گئے

عرش صدیقی




اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

عرش صدیقی




میں پیروی اہل سیاست نہیں کرتا
اک راستہ ان سب سے جدا چاہئے مجھ کو

عرش صدیقی




اٹھتی تو ہے سو بار پہ مجھ تک نہیں آتی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی

عرش صدیقی




وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے
اپنی تصویریں بھی کمرے سے اٹھا کر لے گیا

عرش صدیقی




زمانے بھر نے کہا عرشؔ جو، خوشی سے سہا
پر ایک لفظ جو اس نے کہا سہا نہ گیا

عرش صدیقی




دل کو معلوم ہے کیا بات بتانی ہے اسے
اس سے کیا بات چھپانی ہے زباں جانتی ہے

ارشد عبد الحمید