EN हिंदी
دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو | شیح شیری
darwaza tere shahr ka wa chahiye mujhko

غزل

دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو

عرش صدیقی

;

دروازہ ترے شہر کا وا چاہئے مجھ کو
جینا ہے مجھے تازہ ہوا چاہئے مجھ کو

آزار بھی تھے سب سے زیادہ مری جاں پر
الطاف بھی اوروں سے سوا چاہئے مجھ کو

وہ گرم ہوائیں ہیں کہ کھلتی نہیں آنکھیں
صحرا میں ہوں بادل کی ردا چاہئے مجھ کو

لب سی کے مرے تو نے دیے فیصلے سارے
اک بار تو بے درد سنا چاہئے مجھ کو

سب ختم ہوئے چاہ کے اور خبط کے قصے
اب پوچھنے آئے ہو کہ کیا چاہئے مجھ کو

ہاں چھوٹا مرے ہاتھ سے اقرار کا دامن
ہاں جرم ضعیفی کی سزا چاہئے مجھ کو

محبوس ہے گنبد میں کبوتر مری جاں کا
اڑنے کو فلک بوس فضا چاہئے مجھ کو

سمتوں کے طلسمات میں گم ہے مری تائید
قبلہ تو ہے اک قبلہ نما چاہئے مجھ کو

میں پیروی اہل سیاست نہیں کرتا
اک راستہ ان سب سے جدا چاہئے مجھ کو

وہ شور تھا محفل میں کہ چلا اٹھا واعظؔ
اک جام مئے ہوش ربا چاہئے مجھ کو

تقصیر نہیں عرشؔ کوئی سامنے پھر بھی
جیتا ہوں تو جینے کی سزا چاہئے مجھ کو