مہر و مہتاب کو میرے ہی نشاں جانتی ہے
میں کہاں ہوں وہ مری سرو رواں جانتی ہے
تم سے ہو کر ہی تو آئی ہے لہو تک میرے
تم کو یہ سرخیٔ جاں شعلہ رخاں جانتی ہے
کون اپنا ہے سمجھتی ہے خموشی شب کی
اجنبی کون ہے آواز سگاں جانتی ہے
دل کو معلوم ہے کیا بات بتانی ہے اسے
اس سے کیا بات چھپانی ہے زباں جانتی ہے
خاک کو چھوڑ کے جانا ہمیں منظور نہیں
ہم خس و خار نہیں جوئے تپاں جانتی ہے
تو کبھی خواہش دنیا نہیں کرنے والا
میرے ابدال تجھے دانش جاں جانتی ہے
میرے پاس آ کے بھی رہتی ہے گریزاں مجھ سے
میں نہ ڈوبوں گا مری موج گماں جانتی ہے
اس طرح گھورتی رہتی ہے شب و روز مجھے
جیسے دنیا مرے سب راز نہاں جانتی ہے
غزل
مہر و مہتاب کو میرے ہی نشاں جانتی ہے
ارشد عبد الحمید