زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی
جاری ہے ابھی گردش پا سہمی ہوئی سی
دل ٹوٹ تو جاتا ہے پہ گریہ نہیں کرتا
کیا ڈر ہے کہ رہتی ہے وفا سہمی ہوئی سی
اٹھ جائے نظر بھول کے گر جانب افلاک
ہونٹوں سے نکلتی ہے دعا سہمی ہوئی سی
ہاں ہنس لو رفیقو کبھی دیکھی نہیں تم نے
نمناک نگاہوں میں حیا سہمی ہوئی سی
تقصیر کوئی ہو تو سزا عمر کا رونا
مٹ جائیں وفا میں تو جزا سہمی ہوئی سی
ہاں ہم نے بھی پایا ہے صلہ اپنے ہنر کا
لفظوں کے لفافوں میں بقا سہمی ہوئی سی
ہر لقمے پہ کھٹکا ہے کہیں یہ بھی نہ چھن جائے
معدے میں اترتی ہے غذا سہمی ہوئی سی
اٹھتی تو ہے سو بار پہ مجھ تک نہیں آتی
اس شہر میں چلتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی
ہے عرشؔ وہاں آج محیط ایک خموشی
جس راہ سے گزری تھی قضا سہمی ہوئی سی
غزل
زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی
عرش صدیقی