کچھ ستارے مری پلکوں پہ چمکتے ہیں ابھی
کچھ ستارے مرے سینے میں سمائے ہوئے ہیں
ارشد عبد الحمید
میں اپنے آپ کو بھی دیکھنے سے قاصر ہوں
یہ شام ہجر مجھے کیا دکھانا چاہتی ہے
ارشد عبد الحمید
ملے جو اس سے تو یادوں کے پر نکل آئے
اس اک مقام پہ کتنے سفر نکل آئے
ارشد عبد الحمید
مرا ہی سینہ کشادہ ہے چاہتوں کے تئیں
تفنگ درد مرا ہی نشانا چاہتی ہے
ارشد عبد الحمید
مٹی کو چوم لینے کی حسرت ہی رہ گئی
ٹوٹا جو شاخ سے تو ہوا لے گئی مجھے
ارشد عبد الحمید
مدتوں گھاؤ کیے جس کے بدن پر ہم نے
وقت آیا تو اسی خواب کو تلوار کیا
ارشد عبد الحمید
ساون آتے ہی بڑھے آوازوں کا زور
خوشبو چیخے ڈال پر رنگ مچائیں شور
ارشد عبد الحمید

