EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سر بلندی مری تنہائی تک آ پہنچی ہے
میں وہاں ہوں کہ جہاں کوئی نہیں میرے سوا

ارشد عبد الحمید




سخن کے چاک میں پنہاں تمہاری چاہت ہے
وگرنہ کوزہ گری کی کسے ضرورت ہے

ارشد عبد الحمید




انہیں یہ زعم کہ بے سود ہے صدائے سخن
ہمیں یہ ضد کہ اسی ہاؤ ہو میں پھول کھلے

ارشد عبد الحمید




یہ دنیا اکبر ظلموں کی ہم مجبوری کی انارکلی
ہم دیواروں کے بیچ میں ہیں ہم نرغۂ جبر و جلال میں ہیں

ارشد عبد الحمید




یہ انتظار نہیں شمع ہے رفاقت کی
اس انتظار سے تنہائی خوبصورت ہے

ارشد عبد الحمید




یہ کس کو یاد کیا روح کی ضرورت نے
یہ کس کے نام سے میرے لہو میں پھول کھلے

ارشد عبد الحمید




زمیں کے پاس کسی درد کا علاج نہیں
زمین ہے کہ مرے عہد کی سیاست ہے

ارشد عبد الحمید