EN हिंदी
وقت کا جھونکا جو سب پتے اڑا کر لے گیا | شیح شیری
waqt ka jhonka jo sab patte uDa kar le gaya

غزل

وقت کا جھونکا جو سب پتے اڑا کر لے گیا

عرش صدیقی

;

وقت کا جھونکا جو سب پتے اڑا کر لے گیا
کیوں نہ مجھ کو بھی ترے در سے اٹھا کر لے گیا

رات اپنے چاہنے والوں پہ تھا وہ مہرباں
میں نہ جاتا تھا مگر وہ مجھ کو آ کر لے گیا

ایک سیل بے اماں جو عاصیوں کو تھا سزا
نیک لوگوں کے گھروں کو بھی بہا کر لے گیا

میں نے دروازہ نہ رکھا تھا کہ ڈرتا تھا مگر
گھر کا سرمایہ وہ دیواریں گرا کر لے گیا

وہ عیادت کو تو آیا تھا مگر جاتے ہوئے
اپنی تصویریں بھی کمرے سے اٹھا کر لے گیا

میں جسے برسوں کی چاہت سے نہ حاصل کر سکا
ایک ہم سایہ اسے کل ورغلا کر لے گیا

سج رہی تھی جنس جو بازار میں اک عمر سے
کل اسے اک شخص پردوں میں چھپا کر لے گیا

میں کھڑا فٹ پاتھ پر کرتا رہا رکشا تلاش
میرا دشمن اس کو موٹر میں بٹھا کر لے گیا

سو رہا ہوں میں لیے خالی لفافہ ہاتھ میں
اس میں جو مضموں تھا وہ قاصد چرا کر لے گیا

رقص کے وقفے میں جب کرنے کو تھا میں عرض شوق
کوئی اس کو میرے پہلو سے اٹھا کر لے گیا

اے عذاب دوستی مجھ کو بتا میرے سوا
کون تھا جو تجھ کو سینے سے لگا کر لے گیا

مہرباں کیسے کہوں میں عرشؔ اس بے درد کو
نور آنکھوں کا جو اک جلوہ دکھا کر لے گیا