ہم حد اندمال سے بھی گئے
اب فریب خیال سے بھی گئے
دل پہ تالا زبان پر پہرا
یعنی اب عرض حال سے بھی گئے
جام جم کی تلاش لے ڈوبی
اپنے جام سفال سے بھی گئے
خوف کم مائیگی برا ہو ترا
آرزوئے وصال سے بھی گئے
شورش زندگی تمام ہوئی
گردش ماہ و سال سے بھی گئے
یوں مٹے ہم کہ اب زوال نہیں
شوق اوج کمال سے بھی گئے
ہم نے چاہا تھا تیری چال چلیں
ہائے ہم اپنی چال سے بھی گئے
حسن فردا خیال و خواب رہا
اور ماضی و حال سے بھی گئے
ہم تہی دست وقف غم ہیں وہی
تنگنائے سوال سے بھی گئے
سجدہ بھی عرشؔ ان کو کر دیکھا
اس رہ پائمال سے بھی گئے
غزل
ہم حد اندمال سے بھی گئے
عرش صدیقی