EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تیرہ و تار خلاؤں میں بھٹکتا رہا ذہن
رات صحرائے انا سے میں ہراساں گزرا

عارف عبدالمتین




تتلیاں رنگوں کا محشر ہیں کبھی سوچا نہ تھا
ان کو چھونے پر کھلا وہ راز جو کھلتا نہ تھا!

عارف عبدالمتین




وفا نگاہ کی طالب ہے امتحاں کی نہیں
وہ میری روح میں جھانکے نہ آزمائے مجھے

عارف عبدالمتین




ذات کا آئینہ جب دیکھا تو حیرانی ہوئی
میں نہ تھا گویا کوئی مجھ سا تھا میرے روبرو

عارف عبدالمتین




مجھ کو جنت سے اٹھا کر یہ کہاں پھینک دیا
اپنے مسکن سے بہت دور رہوں گا کیسے

عارف انصاری




ابھی تو میں نے فقط بارشوں کو جھیلا ہے
اب اس کے بعد سمندر بھی دیکھنا ہے مجھے

عارف امام




عجب تھا نشۂ وارفتگیٔ وصل اسے
وہ تازہ دم رہا مجھ کو نڈھال کر کے بھی

عارف امام