میں جس کو راہ دکھاؤں وہی ہٹائے مجھے
میں نقش پا ہوں کوئی خاک سے اٹھائے مجھے
مہک اٹھے گی فضا میرے تن کی خوشبو سے
میں عود ہوں کبھی آ کر کوئی جلائے مجھے
چراغ ہوں تو فقط طاق کیوں مقدر ہو
کوئی زمانے کے دریا میں بھی بہائے مجھے
میں مشت خاک ہوں صحرا مری تمنا ہے
ہوائے تیز کسی طور سے اڑائے مجھے
اگر مرا ہے تو اترے کبھی مرے گھر میں
وہ چاند بن کے نہ یوں دور سے لبھائے مجھے
وہ آئینے کی طرح میرے سامنے آئے
مجھے نہیں تو مرا عکس ہی دکھائے مجھے
امنڈتی یادوں کے آشوب سے میں واقف ہوں
خدا کرے کسی صورت وہ بھول جائے مجھے
وفا نگاہ کی طالب ہے امتحاں کی نہیں
وہ میری روح میں جھانکے نہ آزمائے مجھے
غزل
میں جس کو راہ دکھاؤں وہی ہٹائے مجھے
عارف عبدالمتین