EN हिंदी
فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے | شیح شیری
fasil-e-zat se bahar bhi dekhna hai mujhe

غزل

فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے

عارف امام

;

فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے
شکست خواب کا منظر بھی دیکھنا ہے مجھے

ابھی تو میں نے فقط بارشوں کو جھیلا ہے
اب اس کے بعد سمندر بھی دیکھنا ہے مجھے

بنا رہا ہوں ابھی گھر کو آئنہ خانہ
پھر اپنے ہاتھ میں پتھر بھی دیکھنا ہے مجھے

سپاہ کار جہاں سے نمٹ چکا ہوں مگر
تمہاری یاد کا لشکر بھی دیکھنا ہے مجھے

ابھی تو غم کو سخن کرنا سہل ہے عارفؔ
مقام عجز سخنور بھی دیکھنا ہے مجھے