فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے
شکست خواب کا منظر بھی دیکھنا ہے مجھے
ابھی تو میں نے فقط بارشوں کو جھیلا ہے
اب اس کے بعد سمندر بھی دیکھنا ہے مجھے
بنا رہا ہوں ابھی گھر کو آئنہ خانہ
پھر اپنے ہاتھ میں پتھر بھی دیکھنا ہے مجھے
سپاہ کار جہاں سے نمٹ چکا ہوں مگر
تمہاری یاد کا لشکر بھی دیکھنا ہے مجھے
ابھی تو غم کو سخن کرنا سہل ہے عارفؔ
مقام عجز سخنور بھی دیکھنا ہے مجھے
غزل
فصیل ذات سے باہر بھی دیکھنا ہے مجھے
عارف امام