EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زندگی مجھ کو مری نظروں میں شرمندہ نہ کر
مر چکا ہے جو بہت پہلے اسے زندہ نہ کر

عقیل شاداب




نظر گم ہو گئی جلووں میں عارفؔ
اندھیرا کر دیا ہے روشنی نے

عارف عباسی




پھونک کر میں نے آشیانے کو
روشنی بخش دی زمانے ہمیں

عارف عباسی




چاند میرے گھر میں اترا تھا کہیں ڈوبا نہ تھا
اے مرے سورج ابھی آنا ترا اچھا نہ تھا

عارف عبدالمتین




ہمیں نے راستوں کی خاک چھانی
ہمیں آئے ہیں تیرے پاس چل کے

عارف عبدالمتین




کبھی خیال کے رشتوں کو بھی ٹٹول کے دیکھ
میں تجھ سے دور سہی تجھ سے کچھ جدا بھی نہیں

عارف عبدالمتین




تھا اعتماد حسن سے تو اس قدر تہی
آئینہ دیکھنے کا تجھے حوصلہ نہ تھا

عارف عبدالمتین