EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

عارف شفیق




جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

عارف شفیق




کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا
ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا

عارف شفیق




مجھ کو ویسا خدا ملا بالکل
میں نے عارفؔ کیا گماں جیسا

عارف شفیق




تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی

عارف شفیق




ارماںؔ بس ایک لذت اظہار کے سوا
ملتا ہے کیا خیال کو لفظوں میں ڈھال کر

ارمان نجمی




بچا کیا رہ گیا کالک بھرے جھلسے مکانوں میں
اجاڑی بستیوں کی بے نشانی کا تماشا کر

ارمان نجمی