کتنی حسرت سے تری آنکھ کا بادل برسا
یہ الگ بات مرا شعلۂ غم بجھ نہ سکا
تیرا پیکر ہے وہ آئینہ کہ جس کے دم سے
میں نے سو روپ میں خود اپنا سراپا دیکھا
ایک لمحے کے لیے چاند کی خواہش کی تھی
عمر بھر سر پہ مرے قہر کا سورج چمکا
جب بھی احساس اماں باعث تسکیں ٹھہرا
ان گنت خطروں کی آہٹ سے دل اپنا دھڑکا
میں اذیت کی گپھاؤں میں کراہوں کب تک
بے گناہی کی سزا کے لیے میعاد ہے کیا
تیرہ و تار خلاؤں میں بھٹکتا رہا ذہن
رات صحرائے انا سے میں ہراساں گزرا
سحر گویائی کے کس دشت کا فیضان ہے یہ
ہر سخن لب سے ترے صورت آہو نکلا
میں نے جس شاخ کو پھولوں سے سجایا عارفؔ
میرے سینے میں اسی شاخ کا کانٹا اترا
غزل
کتنی حسرت سے تری آنکھ کا بادل برسا
عارف عبدالمتین