نفس کی آمد و شد کو وبال کر کے بھی
وہ خوش نہیں ہے ہمارا یہ حال کر کے بھی
عجب تھا نشۂ وارفتگیٔ وصل اسے
وہ تازہ دم رہا مجھ کو نڈھال کر کے بھی
ہمیں عزیز ہمیشہ رہی ہے نسبت خاک
یہ سر جھکا رہا کسب کمال کر کے بھی
لو ہم نہ کہتے تھے ہم کو نہیں امید جواب
لو ہم نے دیکھ لیا ہے سوال کر کے بھی
یہ ایک عمر پرانی شراب ہے یارو
خمار ہجر رہے گا وصال کر کے بھی
اسی کے نام کا سجدہ کیا مصلے پر
اسی کا ذکر کیا ہے دھمال کر کے بھی
شراب دانۂ انگور سے برابر کھینچ
پر ایک کوزہ کشید خیال کر کے بھی
غزل
نفس کی آمد و شد کو وبال کر کے بھی
عارف امام