چاند میرے گھر میں اترا تھا کہیں ڈوبا نہ تھا
اے مرے سورج ابھی آنا ترا اچھا نہ تھا
میں نے سن لی تھی ترے قدموں کی آہٹ دور سے
تو نہ آئے گا کبھی دل میں مرے دھڑکا نہ تھا
میں نے دیکھا تھا سر آئینہ اک پیکر کا عکس
ہو بہ ہو ہم شکل تھا میرا مگر مجھ سا نہ تھا
کیوں جھلس ڈالا ہے اس نے میرے خد و خال کو
وقت اک دریا تھا لیکن آگ کا دریا نہ تھا
بند پانی کے بھنور میں کھو گئی کشتی مری
آنکھ جل تھل تھی مگر آنسو کوئی ٹپکا نہ تھا
میں نہ دامان چراغ بے نوا بن کر جلا
تھی طلب جھونکے کی مجھ کو اور تو جھونکا نہ تھا
گھوم کر دیکھا تو تھا جس راہ پر تنہا رواں
بھیڑ اتنی تھی کہ چلنے کو وہاں رستا نہ تھا
میں کہ وسعت کی تمنا میں بگولا بن گیا
ریت کے ذرے تھے دامن میں مرے صحرا نہ تھا
کاہش سوز و زیاں نے راکھ کر ڈالا مجھے
میں نے سمجھا تھا کہ یہ شعلہ یہاں جلتا نہ تھا
میرے صحرا کی تپش کو دیکھ کر حیراں نہ تھا
ابر گھر کر بارہا آیا مگر برسا نہ تھا
اپنے بچوں کا تبسم دیکھ کر عارفؔ بتا
گھر کی ویرانی کا تجھ کو شکوۂ بے جا نہ تھا
غزل
چاند میرے گھر میں اترا تھا کہیں ڈوبا نہ تھا
عارف عبدالمتین