جو ابھرے وقت کے سانچے میں ڈھل کے
وہ ڈوبے ایک عالم کو بدل کے
غم منزل تجھے شاید خبر ہو
یہاں پہنچے ہیں کتنے کوس چل کے
اب ان کے پاس آنسو ہیں نہ آہیں
جو غم کی آگ سے نکلے ہیں جل کے
زمیں کی ایک ہی جنبش بہت ہے
زمیں سے آ ملیں گے یہ محل کے
ہمیں نے راستوں کی خاک چھانی
ہمیں آئے ہیں تیرے پاس چل کے
ان آنکھوں نے یہ ان ہونی بھی دیکھی
نسیم صبح گزری گل مسل کے
زمانہ کیوں تجھی پر مر رہا ہے
بہانے جب کہ لاکھوں ہیں اجل کے
تری گفتار پر عالم فدا ہے
تری باتوں میں تیور ہیں غزل کے
سحر ہونے کو ہے عارفؔ خدارا
گھڑی بھر سو رہو پہلو بدل کے
غزل
جو ابھرے وقت کے سانچے میں ڈھل کے
عارف عبدالمتین