EN हिंदी
زمیں سے تا بہ فلک کوئی فاصلہ بھی نہیں | شیح شیری
zamin se ta-ba-falak koi fasla bhi nahin

غزل

زمیں سے تا بہ فلک کوئی فاصلہ بھی نہیں

عارف عبدالمتین

;

زمیں سے تا بہ فلک کوئی فاصلہ بھی نہیں
مگر افق کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں

سنا ہے سبز ردا اوڑھ لی چمن نے مگر
ہوا کے زور سے برگ خزاں گرا بھی نہیں

بہت بسیط ہے دشت جفا کی تنہائی
قریب و دور کوئی آہوئے وفا بھی نہیں

مجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتھر
میں درد مند کہاں درد آشنا بھی نہیں

کبھی خیال کے رشتوں کو بھی ٹٹول کے دیکھ
میں تجھ سے دور سہی تجھ سے کچھ جدا بھی نہیں

قدم قدم پہ شکستوں کا سامنا ہے مگر
یہ دل وہ شیشۂ جاں ہے کہ ٹوٹتا بھی نہیں

مرے وجود میں برپا ہے اس خیال سے حشر
جو میرے ذہن میں پیدا ابھی ہوا بھی نہیں

میں جس کے سحر سے کوہ ندا تک آ پہنچا
وہ حرف ابھی مرے لب سے ادا ہوا بھی نہیں

میں ایک گنبد بے در میں قید ہوں عارفؔ
مری نوا کا سفر ورنہ بے ردا بھی نہیں