زندگی مجھ کو مری نظروں میں شرمندہ نہ کر
مر چکا ہے جو بہت پہلے اسے زندہ نہ کر
حال کا یہ دکھ ترے ماضی کی تجھ کو دین ہے
آج تک جو کچھ کیا تو نے وہ آئندہ نہ کر
تو بھی اس طوفان میں اک ریت کی دیوار ہے
اپنی ہستی بھول کر ہر ایک کی نندہ نہ کر
سو گنا ہوتے ہوئے بھی جس نے بازی ہار دی
ایسی بزدل بھیڑ کا مجھ کو نمائندہ نہ کر
جسم کیا شے ہے کہ میری روح تک جل جائے گی
آگ میں اپنی جلا کر مجھ کو تابندہ نہ کر
غزل
زندگی مجھ کو مری نظروں میں شرمندہ نہ کر
عقیل شاداب