EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ٹھہر سکتی ہے کہاں اس رخ تاباں پہ نظر
دیکھ سکتا ہے اسے آدمی بند آنکھوں سے

انور شعور




ترے ہوتے جو جچتی ہی نہیں تھی
وہ صورت آج خاصی لگ رہی ہے

انور شعور




وہ مجھ سے روٹھ نہ جاتی تو اور کیا کرتی
مری خطائیں مری لغزشیں ہی ایسی تھیں

انور شعور




وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد
کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

انور شعور




زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا
مری جاں! میں تمہارا آدمی ہوں

انور شعور




زندگی کی ضرورتوں کا یہاں
حسرتوں میں شمار ہوتا ہے

انور شعور




بکھر کے ٹوٹ گئے ہم بکھرتی دنیا میں
خود آفرینی کا سودا ہمارے سر میں تھا

انور صدیقی