ہجوم شعلہ میں تھا حلقۂ شرر میں تھا
کب اپنا خواب میں کوئی سایۂ شجر میں تھا
میں آج پھر تجھے کیا دیکھ پاؤں گا دنیا
وہ شخص دیر تلک آج پھر نظر میں تھا
سیہ فضاؤں میں اونچی اڑان سے پہلے
کرن کرن کا اجالا سا بال و پر میں تھا
خنک فضاؤں میں اس دشت غم کے آنے تک
ہمارے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں تھا
شرر شرر تھے جو لمحے حسین لگتے تھے
جو لطف تھا بھی تو کچھ قرب مختصر میں تھا
بکھر کے ٹوٹ گئے ہم بکھرتی دنیا میں
خود آفرینی کا سودا ہمارے سر میں تھا
غزل
ہجوم شعلہ میں تھا حلقۂ شرر میں تھا
انور صدیقی