جب مری زیست کے عنواں نئے مطلوب ہوئے
میرے اعمال میں ارمان بھی محسوس ہوئے
ان میں سب اپنا پتہ اپنا نشاں ڈھونڈتے ہیں
جتنے افسانے ترے نام سے منسوب ہوئے
سب دکھاتے ہیں ترا عکس مری آنکھوں میں
ہم زمانے کو اسی طور سے محبوب ہوئے
جن کو ایمان تھا نظروں کی مسیحائی پر
دل کی بستی سے جو گزرے بڑے محجوب ہوئے
قطرے قطرے سے لہو کے اسے سرسبز کیا
اور دیوانے اسی شاخ پہ مصلوب ہوئے
غزل
جب مری زیست کے عنواں نئے مطلوب ہوئے
انور معظم