دیدۂ تر نے عجب جلوہ گری دیکھی ہے
غم نے جس شاخ کو پالا وہ ہری دیکھی ہے
ہائے کس بت کی خدائی کا بھرم ٹوٹا ہے
خلق نے آج ان آنکھوں میں تری دیکھی ہے
نہ ملا پر نہ ملا عشق کو انداز جنوں
ہم نے مجنوں کی بھی آشفتہ سری دیکھی ہے
آب و گل غنچہ و گل دیدہ و دل شمس و قمر
کن حجابوں میں تری پردہ دری دیکھی ہے
ہاں کبھی کھل نہ سکا پھول پہ مضمون بہار
او صبا ہم نے تری نامہ بری دیکھی ہے
کون اسیر غم کوتاہیٔ پرواز نہیں
کس نے صیاد کی بے بال و پری دیکھی ہے
غزل
دیدۂ تر نے عجب جلوہ گری دیکھی ہے
انور معظم