EN हिंदी
یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے | شیح شیری
ye qissa-e-gham-e-dil hai to bankpan se chale

غزل

یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے

انور معظم

;

یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے
کسی نگاہ پہ ٹھہرے کسی بدن سے چلے

نہ جانے کس کے کرم سے کھلے کلی دل کی
سموم دشت سے اٹھے صبا چمن سے چلے

وہ آئے دل میں تو یوں جیسے شام کا تارہ
مثال ماہ ستاروں کی انجمن سے چلے

فسانے چاک گریباں کے پڑ گئے پھیکے
جنوں کی بات کبھی تیرے پیرہن سے چلے

ہجوم صبح کی تنہائیوں میں ڈوب گئے
وہ قافلے جو اندھیروں کی انجمن سے چلے