یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے
کسی نگاہ پہ ٹھہرے کسی بدن سے چلے
نہ جانے کس کے کرم سے کھلے کلی دل کی
سموم دشت سے اٹھے صبا چمن سے چلے
وہ آئے دل میں تو یوں جیسے شام کا تارہ
مثال ماہ ستاروں کی انجمن سے چلے
فسانے چاک گریباں کے پڑ گئے پھیکے
جنوں کی بات کبھی تیرے پیرہن سے چلے
ہجوم صبح کی تنہائیوں میں ڈوب گئے
وہ قافلے جو اندھیروں کی انجمن سے چلے
غزل
یہ قصۂ غم دل ہے تو بانکپن سے چلے
انور معظم