شہر در شہر فضاؤں میں دھواں ہے اب کے
کس سے کہیے کہ قیامت کا سماں ہے اب کے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر دیکھ یہ سہمے چہرے
کان رکھتا ہے تو سن کتنی فغاں ہے اب کے
چند کلیوں کے چٹکنے کا نہیں نام بہار
قافلہ کل کا چلا تھا تو کہاں ہے اب کے
تھی مگر اتنی نہ تھی کور زمانے کی نظر
ایک قاتل پہ مسیحا کا گماں ہے اب کے
اتنا سناٹا ہے کچھ بولتے ڈر لگتا ہے
سانس لینا بھی دل و جاں پہ گراں ہے اب کے
ہونٹ سل جائیں تو کیا آنکھ تو روشن ہے مری
چشم خوں ناب کا ہر اشک رواں ہے اب کے
کھل کے کچھ کہہ نہ سکوں چپ بھی مگر رہ نہ سکوں
کس قدر ضیق میں خالد مری جاں ہے اب کے
غزل
شہر در شہر فضاؤں میں دھواں ہے اب کے
انور محمود خالد