زخم نظارہ خون نظر دیکھتے رہو
جو کچھ دکھائے دیدۂ تر دیکھتے رہو
چشم صدف کے درد سے صرف نظر کرو
کس طرح ٹوٹتے ہیں گہر دیکھتے رہو
شاید کسی کا نقش کف پا چمک اٹھے
اے رہنماؤ راہ گزر دیکھتے رہو
گیسوئے شب سنوارنے والو کبھی کبھی
آئینۂ نگار سحر دیکھتے رہو
آنکھوں میں گھل نہ جائیں کہیں ظلمتوں کے رنگ
جس سمت روشنی ہے ادھر دیکھتے رہو
غزل
زخم نظارہ خون نظر دیکھتے رہو
انور معظم