آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے توقیر کہاں
کس محفل کا نام ہے مقتل کھنچتی ہے شمشیر کہاں
چھوٹ نہ پاؤ گے دل والو چاہت کے اس زنداں سے
چاہو تو دل ٹوٹ بھی جائیں ٹوٹے گی زنجیر کہاں
چشم سحر میں آس امید کیا آنسو کی اک بوند نہیں
یوں دامن پھیلائے چلے ہیں راتوں کے رہ گیر کہاں
صدیوں کے پہچانے خوابوں سے بوجھل ان آنکھوں کو
انجانے خوابوں کے شہر میں لے آئی تعبیر کہاں
اک ویرانہ ایک شجر کچھ سائے دو پیاسی آنکھیں
دیکھیں سجے گی دن کے مکان میں رات کی یہ تصویر کہاں
وقت کا دریا لے بھی گیا وہ سب جو دل و جاں سے تھا عزیز
ڈھونڈ رہے ہو ساحل پر اب آنسو کی تحریر کہاں
غزل
آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے توقیر کہاں
انور معظم