جو ہو سکا نہ مرا اس کو بھول جاؤں میں
پرائی آگ میں کیوں انگلیاں جلاؤں میں
وہ اب کے جائے تو پھر لوٹ کر نہ آئے کبھی
بھلائے ایسے کہ پھر یاد بھی نہ آؤں میں
سکھی رہے وہ سدا اپنے گھر کے آنگن میں
اس اک دعا کے لئے ہاتھ اب اٹھاؤں میں
نئی رتوں کے جھمیلے ہوں اس کا زاد سفر
شکست عرض تمنا پہ گنگناؤں میں
اٹھائے ناز وہی جس کی وہ امانت ہے
نہ روٹھے مجھ سے نہ جا کر اسے مناؤں میں
وہ روتی آنکھوں کرے چاک میری تصویریں
اک ایک کر کے سبھی اس کے خط جلاؤں میں
اٹھا کے دیکھے وہ کھڑکی کے ریشمی پردے
تو چاہنے پہ بھی اس کو نظر نہ آؤں میں
ہوا کے ہاتھ بھی پیغام وہ اگر بھیجے
خیال بن کے بھی اس کے نگر نہ جاؤں میں
وہ حادثات کی حدت سے جب پگھلنے لگے
تو چاند بن کے خنک دل میں جگمگاؤں میں
غزل
جو ہو سکا نہ مرا اس کو بھول جاؤں میں
انور محمود خالد