EN हिंदी
اے شب غم جو ہم بھی گھر جائیں | شیح شیری
ai shab-e-gham jo hum bhi ghar jaen

غزل

اے شب غم جو ہم بھی گھر جائیں

انجم خیالی

;

اے شب غم جو ہم بھی گھر جائیں
شہر کس کے سپرد کر جائیں

کتنی اطراف کتنے رستے ہیں
ہم اکیلے کدھر کدھر جائیں

ایک ہی گھر میں قید ہے سلطاں
ہم بھکاری نگر نگر جائیں

آنکھ جھپکیں تو اتنے عرصے میں
جانے کتنے برس گزر جائیں

صورت ایسی بگاڑ لی اپنی
وہ ہمیں دیکھ لیں تو ڈر جائیں