EN हिंदी
خاک کا رزق یہاں ہر کس و ناکس نکلا | شیح شیری
KHak ka rizq yahan har kas-o-na-kas nikla

غزل

خاک کا رزق یہاں ہر کس و ناکس نکلا

انجم خلیق

;

خاک کا رزق یہاں ہر کس و ناکس نکلا
یہ بدن سینچنے والا بڑا بے بس نکلا

وہ جو کرتا تھا سدا خرقۂ درویش کی بات
وہ بھی دربار میں وارفتۂ اطلس نکلا

زرفشاں ہے مری زرخیز زمینوں کا بدن
ذرہ ذرہ مرے پنجاب کا پارس نکلا

میری حیرت کو بھی تاریخ میں محفوظ کرو
میرے احباب میں ہر شخص بروٹس نکلا

تتلیاں پیار کی تھک ہار کے لوٹ آئی ہیں
غنچہ چشم ہی اس شخص کا بے رس نکلا

یہ قلم مجرم توصیف غزالاں انجمؔ
وقت پڑنے پہ تو یہ فیل کا آنکس نکلا