یہاں جو زخم ملتے ہیں وہ سلتے ہیں یہیں میرے
تمہارے شہر کے سب لوگ تو دشمن نہیں میرے
تلاش عہد رفتہ میں عجائب گھر بھی دیکھے ہیں
وہاں بھی سب حوالے ہیں کہیں تیرے کہیں میرے
ذرا سی میں نے ترجیحات کی ترتیب بدلی تھی
کہ آپس میں الجھ کر رہ گئے دنیا و دیں میرے
فلک حد ہے کہ سرحد ہے زمیں معدن ہے یا مدفن
مجھے بے چین ہی رکھتے ہیں یہ وہم و یقیں میرے
میں تیرے ظلم کیسے حشر تک سہتا چلا جاؤں
بس اب تو فیصلے ہوں گے یہیں تیرے یہیں میرے
اچانک کس طرح آخر یہ دنیا چھوڑ سکتا ہوں
خزانے جا بہ جا مدفون ہیں زیر زمیں میرے
تو جب میرے کئے پر ہے مرا انجام پھر انجام
یہ ماضی حال مستقبل تو ہیں زیر نگیں میرے
غزل
یہاں جو زخم ملتے ہیں وہ سلتے ہیں یہیں میرے
انجم خلیق