جہاں سینوں میں دل شانوں پہ سر آباد ہوتے ہیں
وہی دو چار تو بستی میں گھر آباد ہوتے ہیں
بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں
کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں
بزرگوں کو تبرک کی طرح رکھو مکانوں میں
بلائیں رد کئے جانے سے گھر آباد ہوتے ہیں
زباں بندی کے موسم میں گلی کوچوں کی مت پوچھو
پرندوں کے چہکنے سے شجر آباد ہوتے ہیں
جو پتھر کی سلوں کو تاج محلوں میں بدل ڈالیں
یہاں کچے گھروں میں وہ ہنر آباد ہوتے ہیں
مرے اندوہ میں مضمر ہے اس کی سر خوشی ایسے
ڈبو کر کشتیاں جیسے بھنور آباد ہوتے ہیں
مری تعمیر بہتر شکل میں ہونے کو ہے انجمؔ
کہ جنگل صاف ہونے سے نگر آباد ہوتے ہیں
غزل
جہاں سینوں میں دل شانوں پہ سر آباد ہوتے ہیں
انجم خلیق