EN हिंदी
یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا | شیح شیری
ye kaisi baat mera mehrban bhul gaya

غزل

یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا

انجم خلیق

;

یہ کیسی بات مرا مہربان بھول گیا
کمک میں تیر تو بھیجے کمان بھول گیا

جنوں نے مجھ سے تعارف کے مرحلے میں کہا
میں وہ ہنر ہوں جسے یہ جہان بھول گیا

کچھ اس تپاک سے راہیں لپٹ پڑیں مجھ سے
کہ میں تو سمت سفر کا نشان بھول گیا

خمار قربت منزل تھا نارسی کا جواز
گلی میں آ کے میں اس کا مکان بھول گیا

ہر اک بدلتی ہوئی رت میں یاد آتا ہے
وہ شخص جو مرا نام و نشان بھول گیا

کچھ ایسی بات کبوتر کی آنکھ میں دیکھی
عقاب خوف کے مارے اڑان بھول گیا

میں سر بکف سر مقتل کچھ اس ادا سے گیا
کہ میرا دشمن جاں آن بان بھول گیا

قبائل آج بھی شیر و شکر نظر آتے
خطیب شہر مگر وہ زبان بھول گیا

زمیں کی گود میں اتنا سکون تھا انجمؔ
کہ جو گیا وہ سفر کی تھکان بھول گیا