EN हिंदी
بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا | شیح شیری
bite hue lamhat ko pahchan mein rakhna

غزل

بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا

انجم خلیق

;

بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا

کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے
تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا

کیا دن تھے مجھے شوق سے مہمان بلانا
اور خود کو مگر خدمت مہمان میں رکھنا

کیا وقت تھا کیا وقت ہے اس سوچ سے حاصل
چھوڑو جو ہوا کیا اسے میزان میں رکھنا

انسان کی نیت کا بھروسہ نہیں کوئی
ملتے ہو تو اس بات کو امکان میں رکھنا

پرسش ہے بہت سخت وہاں فرد عمل کی
کچھ نعت کے اشعار بھی دیوان میں رکھنا

مخلص ہو رہو ٹوکا ہے کس نے تمہیں انجمؔ
رفتار زمانہ بھی مگر دھیان میں رکھنا