EN हिंदी
جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا | شیح شیری
jab tak fasil-e-jism ka dar khul na jaega

غزل

جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا

انجم خلیق

;

جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا
اس دل کی یورشوں کا تسلسل نہ جائے گا

خیموں سے تا فرات جو دریائے خوں ہے یہ
اس پر سے مصلحت کا کوئی پل نہ جائے گا

اس کو گماں نہیں تھا کہ عہد خزاں میں بھی
یہ ذوق نغمہ ریزئ بلبل نہ جائے گا

یہ ابر آگہی جو برستا رہا یونہی
مٹی کا یہ وجود مرا گھل نہ جائے گا

گرتا رہے گا یونہی بلاؤں کا آبشار
جب تک غبار قلب و نظر دھل نہ جائے گا

وہ شخص تو خدائی کے دعوے پہ تل گیا
اس حد پہ ہم سمجھتے تھے بالکل نہ جائے گا

بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا

انجمؔ نگار زیست کو پھر چاہیئے وہی
اک سر جو خواہشوں کے عوض تل نہ جائے گا