جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا
اس دل کی یورشوں کا تسلسل نہ جائے گا
خیموں سے تا فرات جو دریائے خوں ہے یہ
اس پر سے مصلحت کا کوئی پل نہ جائے گا
اس کو گماں نہیں تھا کہ عہد خزاں میں بھی
یہ ذوق نغمہ ریزئ بلبل نہ جائے گا
یہ ابر آگہی جو برستا رہا یونہی
مٹی کا یہ وجود مرا گھل نہ جائے گا
گرتا رہے گا یونہی بلاؤں کا آبشار
جب تک غبار قلب و نظر دھل نہ جائے گا
وہ شخص تو خدائی کے دعوے پہ تل گیا
اس حد پہ ہم سمجھتے تھے بالکل نہ جائے گا
بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا
انجمؔ نگار زیست کو پھر چاہیئے وہی
اک سر جو خواہشوں کے عوض تل نہ جائے گا
غزل
جب تک فصیل جسم کا در کھل نہ جائے گا
انجم خلیق