EN हिंदी
یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے | شیح شیری
ye raat Dhalte Dhalte rakh gai jawab ke liye

غزل

یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے

انجم عرفانی

;

یہ رات ڈھلتے ڈھلتے رکھ گئی جواب کے لیے
کہ تیری آنکھیں جاگتی ہیں کس کے خواب کے لیے

کتاب دل پہ لکھنے کی اجازت اس نے دی نہ تھی
ہے سادہ آج بھی ورق یہ انتساب کے لیے

مری نظر میں آ گیا ہے جب سے اک صحیفہ رخ
کشش رہی نہ دل میں اب کسی کتاب کے لیے

ہماری محضر عمل ہے زیر فیصلہ ابھی
کھڑے ہیں سر جھکائے کب سے احتساب کے لیے

پرانے پڑ چکے کبھی کے سب طریقۂ ستم
خرابی اور چاہئے دل خراب کے لیے

سمجھ رہے ہیں سب یہاں ہے زندگی عذاب جاں
مگر یہ بھاگ دوڑ ہے اسی عذاب کے لیے

تمام جسم زخموں سے گلاب زار ہو گیا
تو لڑ رہے ہیں انجمؔ اب یہ کس گلاب کے لیے