اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح
پھول پھینکا بھی مری سمت تو پتھر کی طرح
اس کے لب کو مرے لب رہ گئے چھوتے چھوتے
میں بھی ناکام چلا آیا سکندر کی طرح
رنگ سورج کا سر شام ہوا جاتا ہے زرد
اس کا بھی گھر نہ ہو ویران مرے گھر کی طرح
درد اس عہد کی میراث ہے ڈرنا کیسا
درد کو اوڑھ لیا کرتے ہیں چادر کی طرح
لوگ ہر لمحہ بدلتے ہیں نظریے اپنے
ذہن انساں بھی طوائف کے ہے بستر کی طرح
اب کی یورش میں کہیں گر ہی نہ جائے یہ فصیل
شور رہتا ہے مرے دل میں سمندر کی طرح
کیسا اس عہد میں پیمان وفا لوگ اب تو
دوست ہر سال بدلتے ہیں کلینڈر کی طرح
لفظ آتے ہی مرے لب پہ لرز جاتے ہیں
حال دل سنتے ہیں اب وہ کسی افسر کی طرح
وہی پابندئ اوقات وہی معمولات
زندگی گھر میں بسر ہوتی ہے دفتر کی طرح
ہو گیا خاک نشیں پر یہ جھکائے نہ جھکا
کسی سر میں بھی نہ سودا ہو مرے سر کی طرح
انجمؔ اس عہد میں ٹوٹے ہوئے دل کے رشتے
جوڑنے پر بھی ہیں ادھڑے ہوئے کالر کی طرح
غزل
اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح
انجم عرفانی