ہمیشہ کسی امتحاں میں رہا
رہا بھی تو کیا اس جہاں میں رہا
نہ میں دور تک ساتھ اس کے گیا
نہ وہ دیر تک ہمرہاں میں رہا
وہ دریا پہ مجھ کو بلاتا رہا
مگر میں صف تشنگاں میں رہا
میں بجھنے لگا تو بہت دیر تک
اجالا چراغ زیاں میں رہا
قفس یاد آیا پرندے کو پھر
بہت روز تک آشیاں میں رہا
رہی دیر تک موت سے گفتگو
میں جب حلقۂ رفتگاں میں رہا
نہ گل کوئی دل کے شجر پر کھلا
نہ کوئی ثمر شاخ جاں میں رہا
یہ خانہ ہمیشہ سے ویران ہے
کہاں کوئی دل کے مکاں میں رہا
غزل
ہمیشہ کسی امتحاں میں رہا
انیس اشفاق