ہر ایک پل مجھے دکھ درد بے شمار ملے
خدا کبھی تو میرے دل کو بھی قرار ملے
زمانہ دشمن جاں ہو گیا یہ غم ہے مگر
مرا نصیب کہ خنجر بدست یار ملے
کیا ہوگی اس سے بھی بڑھ کر کسی کی محرومی
جسے نصیب میں تا مرگ انتظار ملے
اے عالمین کے رازق بتا کہاں جاؤں
مرے وطن میں مجھے جب نہ روزگار ملے
رہے وہ زندہ یا مر جائے فرق کیا ہے جسے
گھٹن زمانے میں اور قبر میں فشار ملے
میں مسکراتا مگر دی نہ اشک نے مہلت
خوشی جب ایک ملی ساتھ غم ہزار ملے
جو جھوٹ بولے حکومت سے داد لے جائے
جو بولے سچ اسے تحفے میں اوج دار ملے
فلک پہ لکھوں ترا نام میرے نام کے ساتھ
اگر کبھی مجھے تاروں پر اختیار ملے
میں جن سے دور ہی رہنا پسند کرتا تھا
وہ زندگی کی مسافت میں بار بار ملے
خوشی سے ابرؔ ہر اک ربط منقطع کر دو
اگر کہی کوئی دنیا میں سوگوار ملے
غزل
ہر ایک پل مجھے دکھ درد بے شمار ملے
انیس ابر