لگا کے دل کوئی کچھ پل امیر رہتا ہے
پھر اک عمر وہ غم میں اسیر رہتا ہے
کیوں ہاتھ دل سے لگاتے ہو بار بار اپنا
کیا دل میں اب بھی کوئی بے نظیر رہتا ہے
تری زباں پہ قناعت کی بات ٹھیک نہیں
ترے بدن پہ لباس حریر رہتا ہے
یقین آ گیا ان مہرباں ہواؤں سے
اسی گلی میں مرا دست گیر رہتا ہے
ترے فراق کا غم وہ ہے کہ دلاسے کو
تا صبح بام پہ ماہ منیر رہتا ہے
پھر اہل عشق کی تخلیق ہوتی ہے پہلے
جنوں کی آگ میں برسوں خمیر رہتا ہے
غزل
لگا کے دل کوئی کچھ پل امیر رہتا ہے
انیس ابر