لفظ یوں خامشی سے لڑتے ہیں
جس طرح غم ہنسی سے لڑتے ہیں
جانور جانور سے لڑتا ہے
آدمی آدمی سے لڑتے ہیں
موت کی آرزو میں دیوانے
عمر بھر زندگی سے لڑتے ہیں
جس سے ہے دوستی کا حکم ہمیں
ہم بھی پاگل اسی سے لڑتے ہیں
دوسروں سے کبھی نہیں لڑتے
لوگ جو بھی خودی سے لڑتے ہیں
یہ اندھیروں کے حکمراں سارے
آج بھی روشنی سے لڑتے ہیں
جو انا کے مریض ہوتے ہیں
ہر نئے دن کسی سے لڑتے ہیں
اور بھی لوگ جب ہیں بستی میں
آپ کیوں کر ہمی سے لڑتے ہیں
ان کو مزدور کہنا ٹھیک نہیں
لوگ جو مفلسی سے لڑتے ہیں
ابرؔ بیکار لوگ پوچھتے ہیں
آپ بھی کیا کسی سے لڑتے ہیں
غزل
لفظ یوں خامشی سے لڑتے ہیں
انیس ابر