EN हिंदी
ترے گیسوؤں کے سائے میں جو ایک پل رہا ہوں | شیح شیری
tere gesuon ke sae mein jo ek pal raha hun

غزل

ترے گیسوؤں کے سائے میں جو ایک پل رہا ہوں

انیس احمد انیس

;

ترے گیسوؤں کے سائے میں جو ایک پل رہا ہوں
ابھی تک ہے یاد مجھ کو ابھی تک بہل رہا ہوں

میں وہ رند نو نہیں ہوں جو ذرا سی پی کے بہکوں
ابھی اور اور ساقی کہ میں پھر سنبھل رہا ہوں

نہیں غم نہ مل سکے گی مجھے شیخ تیری جنت
مجھے آرزو نہیں ہے نہ میں ہاتھ مل رہا ہوں

جو نہ میرے کام آئے جو نہ میری بات مانے
میں وہ دل بدل رہا ہوں میں وہ دل بدل رہا ہوں

مجھے جادۂ طلب میں رہ پر خطر کا کیا غم
کہ قدم جدھر اٹھے ہیں اسی سمت چل رہا ہوں

جو گرا تو پھر اٹھوں گا کہ جواں ہے عزم میرا
مجھے تم نہ دو سہارا میں اگر پھسل رہا ہوں

وہ دبا کے میرا دامن وہ جھکا کے ان کی نظریں
نہیں بھولتا یہ کہنا ابھی میں بھی چل رہا ہوں