نظر ملتے ہی ساقی سے گری اک برق سی دل پر
وہ اٹھا شور ٹوٹے جام کہ بن آئی محفل پر
اسی انداز سے اس نے لکھی ہے داستاں دل پر
گلے میں پیار سے باہیں حمائل اور چھری دل پر
کوئی اک حادثہ ہو گر کریں ہم ذکر بھی اس کا
گزرتے ہیں یہاں تو حادثے پر حادثے دل پر
نہ منزل ہے نہ جادہ ہے نہ کوئی راہبر باقی
مرا ذوق سفر باقی ہے اک ہنگامۂ دل پر
طواف ماہ کرنا اور خلا میں سانس لینا کیا
بھروسہ جب نہیں انسان کو انسان کے دل پر
وہی موجیں جو مجھ کو کھینچ کر لائی ہیں طوفاں میں
انہیں موجوں کے ساتھ اک روز میں پہنچوں گا ساحل پر
مسرت اور راحت سے نہ تھیں رعنائیاں کافی
انیسؔ احسان غم کے بھی بہت ہیں ناتواں دل پر
غزل
نظر ملتے ہی ساقی سے گری اک برق سی دل پر
انیس احمد انیس