چلو یہ سچ ہی سہی ہوگا ناگہاں گزرے
ہمارے در سے مگر آپ مہرباں گزرے
جدھر بھی آپ گئے بس گئے ہیں ویرانے
اجڑ گئے ہیں چمن ہم جہاں جہاں گزرے
ہمیں مٹانے کی گر کوششیں تمام ہوئیں
تو یہ بھی کہئے کہ ہم کتنے سخت جاں گزرے
وہ صبح و شام کی رنگینیاں تمام ہوئیں
صعوبتوں کی کڑی دھوپ ہے جہاں گزرے
وہ اپنے دامن پارہ پہ بھی نگاہ کرے
جہاں میں مجھ پہ اٹھا کر جو انگلیاں گزرے
حیات و موت کا حل کر چکے ہیں ہر عقدہ
اب ہم کو خوف نہیں لاکھ امتحاں گزرے
انیسؔ آپ کو دیکھا ہے ہر گھڑی مصروف
کبھی تو چین سے دو چار دن میاں گزرے
غزل
چلو یہ سچ ہی سہی ہوگا ناگہاں گزرے
انیس احمد انیس